Wednesday, December 10, 2014

11 DECEMBER INTERNATIONAL MOUNTAIN DAY


رات دو بجے لواری ٹنل کے باہرایک گاڑی میں چار دوست ہونے کے باوجود سناٹا تھا۔ گاڑی کے اندر سانسوں کی حرارت نے گاڑی کے شیشے دھندلا دیئے تھے۔ چاروں بری طرح بھیگے ہوئے تھے، کپڑے گیلے ہونے کی وجہ سے گاڑی کی سیٹیں بھی بھیگ چکی تھیں، جوتے پانی سے بھرے ہوئے تھے یہاں تک کہ گاڑی کے اندر بھی پانی تھا  پھر بھی دوستوں کے چہروں پر بلا کا اطمینان تھا۔ کچھ دیر پہلے پانی میں ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت نے سب کو تھکاکر چور کر دیا تھا۔چاروں دوست جو چترال کا رختِ سفر باندھ کرگھر سے نکلے تھے رات دو بجے لواری ٹنل کے باہر آخری نالے میں گاڑی پھنسا بیٹھے اور پانی میں ڈیڑھ گھنٹہ جوجنے کے بعدبے بس ہو کر کسی غیبی امداد کا انتظار کرنے لگے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ایک لوڈر گاڑی والے کی منت سماجت کر کے گاڑی وہاں سے نکلی۔ حسن کی آواز نے جیسے سب دوستوں کو کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعے کے سحر سے نکال لیا۔ ”جہاں اتنا پیسہ اور لوگ خرچ کر کے لواری ٹنل بنا ڈالی لیکن لواری ٹنل تک سڑک نہیں بنا سکے“ حسن جو گاڑی کو پانی میں دھکا لگا لگا کر تھکن سے چور ہو چکا تھا بڑے غصے سے بولا۔اس کا غصہ بجا تھا۔اپر دیر سے لے کر لواری ٹنل کی سڑک اتنی خستہ حالت ہے کہ عام گاڑی اس سڑک پر سفر نہیں کر سکتی۔ فیصل کا غصہ بھی عروج پر تھا ”یار پاکستان میں کسی بھی سیاحتی مقام کو دیکھ لو سب کا یہی حال ہے“۔ثاقب نے کپکپاتے ہونٹوں سے گویا ہوا’کاش پاکستان گورنمنٹ گلگت بلتستان میں بھی فلائی اوورز بنا دے“ میں خاموشی سے سب کی باتیں اور غصہ سننے کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ:
 بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی……! 
۔گلیشیئر ایکسپریس سوئٹزرلینڈ کی ایک ایسی ٹرین ہے جو پہاڑوں کی اونچائیوں (2000 میٹر)پر پر سفر کر کے اپنے ملک کی خوبصورتی کو دکھا کر 229.1 ملین سالانہ اپنے ملک کے لیے ریونیو پیدا کرتی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی خوبصورتی اس کے پرفضا سیاحتی مقامات ہیں اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت اپنے ملک کی خوبصورتی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ 
میں سوچ رہا تھا کہ سوئٹزرلینڈ کے پاس صرف چند ایک چوٹیاں ہیں جن سے وہ اپنے ملک کا آدھے سے زیادہ بجٹ ٹورازم سے حاصل کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کی بد نصیبی دیکھیئے کہ دنیا کی 14بلند ترین چوٹیوں (8000 میٹر سے بلند)میں سے 5 چوٹیاں پاکستان کے پاس ہیں۔ پاکستان کے پاس 7000 میٹر سے زیادہ بلند تقریباً 49 چوٹیاں ہیں۔ پچھلے دنوں فرانس سے ایک دوست جو کہ کوہ پیما اور سکیٹنگ کا شوقین ہے نے فون پر پاکستان آنے کا عندیہ دیا پوچھنے پر کسی چوٹی (گیشربرم 1-)کا نام بتایا جو میں نے پہلے نہیں سنا تھا مجھے شک تھا کہ میرے دوست کو غلطی لگ رہی ہے جس چوٹی کا نام لے رہے ہیں یہ پاکستان میں نہیں ہے۔ مجھے اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب میں نے انٹرنیٹ پر اس پہاڑی کا نام لکھا تو اس نام جیسی پانچ چوٹیاں نظر آئیں جو کہ ساری پاکستان میں ہیں۔ میں اپنے قارئین کو اس خفت سے بچانے کے لیے پاکستان کی 7000میٹر سے بلند چند چوٹیوں کے نام ضرور شامل کرنا چاہوں گا جن میں (۱)’کے ٹو(چگوری)‘دنیا کے دوسرے نمبر پر 8,611 میٹر، (۲)’نانگا پربت‘ 8,125 میٹر، (۳)’گیشربرم(ون)‘8,068 میٹر اور دنیا کے گیارہویں نمبر پر، (۴)’براڈپیک‘دنیا کے 12 ویں نمبر پر8,047 میٹر، (۵) ’گیشربرم(ٹو)‘دنیا کے 14ویں نمبرپر8,035 میٹر بلند، (۶) ’گیشربرم (تھری)‘دنیا کی 15 ویں بلند ترین چوٹی اور 7,952 میٹر بلند،(۷) ’گیشربرم (فور)‘دنیا کی 17 ویں بلند چوٹی7,925 میٹربلند، (۸) ’دستاغل سر‘دنیا کی 20 ویں بلند چوٹی7,885 میٹر بلند، (۹) ’کنیانگ‘ دنیا کی 22 ویں بلند چوٹی7,852 میٹر بلند، (۰۱) ماشربرم 24 ویں نمبر پر 7,821 میٹر بلند، (۱۱) ’راکاپوشی‘  27 ویں نمبر پر 7,788  میٹر بلند،  (۲۱)’باتورہ(ون)‘ 28 ویں نمبر پر7,795 میٹر بلند، (۳۱)’کنجوٹ سر‘ 29 ویں نمبر پر 7,760 میٹر، (۴۱)’سالتورو کنگری‘ 7,742 میٹر بلند ہیں۔ یہ 49 میں سے چند پہاڑیوں کے نام ہیں جو 7000 میٹر سے بلند قراقرم اور ہمالیہ کے سلسلے میں واقع ہیں۔
اگر دبئی جیسا ایک چھوٹا سا جزیرہ جو صرف تیل پر انحصار کیے بیٹھے تھا تیل کے ذخائر ختم ہونے سے پہلے ہی اس نے دبئی کو ایک نیا رنگ او رپہچان دے دی اور صحرا میں ایک ایسی دنیا بسا دی جس کو دیکھنے کیلئے پوری دنیا کے سیاح اکٹھے ہو رہے ہیں تو میرے وطنِ عزیز میں کس چیز کی کمی ہے۔
دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع سلسلوں میں ”دیوسائی“ جسے "Roof of the Wrold" بھی کہا جاتا ہے جو کہ صرف 3000 مربع کلومیٹر عریض اور 4,114 میٹر سطح سمندر سے بلند واقع ہے ۔ جہاں پر 120 اقسام کے گھاس کے پھول، جھیلیں، آبشاریں اور جنگلی حیات ابھی تک قائم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ’یوفرو‘  ’دیوسائی‘) Roof of the World (سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو گا۔اگر ”دیوسائی“ کی خوبصورتی کو ”گلیشیئر ایکسپریس“ جیسی ایک بھی ٹرین مل جائے تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو کسی اور متبادل ذریعہ معاش کی ضرورت نہیں رہے گی۔
میرا پوری قوم سے سوال ہے کیا پاکستان جیسا ملک ٹورازم انڈسٹری کو چلانے کے قابل نہیں یا پھر ترجیحات کی بندر بانٹ ایسی ہے کہ اپنے پیٹ کے علاوہ کسی کو اجتماعی مفاد نظر نہیں آتا۔سیاحت دنیا بھر میں سب سے بڑا ”کماؤ“ شعبہئ بن گیا ہے۔ قدرت نے ہمیں فطری حسن سے نواز رکھا ہے۔ لیکن ہماری قیادت کی ترجیحات میں ٹورازم کی خاص اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ اس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ معاشی دھماکوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا سیاحتی ذوق بھی اچھا ہے اگر محترم وزیر اعظم اس وقت سیاحت کے شعبہئ پر بھی توجہ دیں تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اتنا نفع بخش کام ہے کہ قومی معیشت کو خود انحصاری حاصل ہو سکتی ہے 


Tuesday, March 27, 2012

Visit of U.S Consulate General Lahore to University of Gujrat


Education of women is the best way to educate children. Change in generations and social setup has necessitated that both spouses work and join professions to earn their livelihood. Women should be provided all possible facilities for their growth and development. I am happy to see women of Gujrat growing by leaps and bounds. These views were expressed by Consul General USA Ms Nina Maria Fite in a discussion with faculty and students on the topic of “Challenges to Women in Education” at the video conference Hall. She was all joy in negotiating ideas about the emancipation and empowerment of women. It was interesting to compare the women of two countries Vis-a-Vis growth and development of women. In answering a question Ms Nina Maria remarked that the largest exchange program of the world was going on in Pakistan in terms of scholarships and scholarly activities. Earlier Dr Mudassar gave a detailed orientation about the growth and development of the university where students strength has risen to about 17000.
“It is very salutary that UOG is empowering women by imparting to them necessary skills and knowledge so as to prepare them for workplace. I have been pleased to learn that the University Of Gujrat (UOG) hosts 60% of its students as female students and in the latest admissions 85% female students have been inducted in the university. I had a very good impression about UOG and I am happy to witness a thriving, vibrant campus of the UOG. It smacks of its visionary leadership”, remarked Honourable Consul General of USA Ms Nina Maria Fite at her orientation cum welcome ceremony on her arrival at UOG at Vice Chancellor’s office.
Consul General Ms Nina Maria Fite arrived in the company of her Public Affairs Officer Ms Brinille Eliane Ellis and other officers including Ms Tahira Habeeb Admin Officer, Ms Arisha Bano Media Coordinator. She was received and welcomed by the senior staff. Later she was introduced to Mr Mohammad Akram Bhatti Registrar UOG, Dr Mudassar Iqbal Director (ORIC), Professor Javed Sajjad consultant to VC, Mr Mohammad Yaqoob Manager Research Operation (ORIC), and other officers. She was given orientation about the university by senior staff.
She moved around the campus and visited thesis exhibition “Vision 2030”, arranged by School of Art Design and Architecture (SADA). Prof Ghaffar Mohiuddin gave a detailed briefing about the creative activities of SADA.
Consul General was delighted to see many innovative models and designs built by the students. She was pleased to see photographic exhibition. She was taken to FM Radio station FM 106.06 of the UOG where her short interview was recorded.
The Consul General along with her entourage visited the Mazar of Hafiz Hayat which is being renovated by the Archaeology Department with US aid. She was highly pleased to visit this historic site which houses the seminal residential school of Hafiz Hayat which now has burgeoned into a full-fledged university

Raufi love you boy



Saturday, December 10, 2011